"ماں"
اس عنوان پر منتخب اشعار
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں
ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
میں نے روتے ہوئے
پونچھے تھے کسی دن آنسو
مدتوں ماں نے نہیں
دھویا دوپٹہ اپنا
لبوں پہ اس کے کبھی
بد دعا نہیں ہوتی
بس ایک ماں ہے جو
مجھ سے خفا نہیں ہوتی
کبھی کبھی مجھے یوں
بھی اذاں بلاتی ہے
شریر بچے کو جس طرح
ماں بلاتی ہے
کسی کو گھر ملا حصّے
میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے
چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی
اے اندھیرے دیکھ لے
منہ تیرا کا لا ہو گیا
ماں نے آنکھیں کھول
دیں گھر میں اجالا ہو گیا
میری خواہش ہے کہ
میں پھر سے فرشتہ ہو جاؤں
ماں سے اس طرح لپٹ
جاؤں کہ بچہ ہو جاؤں
مرا خلوص تو پو رب
کے گاؤں جیسا ہے
سلوک دنیا کا سو
تیلی ماؤں جیسا ہے
حادثوں کی گرد سے
خود کو بچا نے کے لئے
ماں ہم اپنے ساتھ اب
تیری دعا لے جائیں گے
لپٹ کے روتی نہیں ہیں
کبھی شہیدوں سے
یہ حوصلہ بھی ہمارے
وطن کی ماؤں میں ہے
یہ سوچ کے ماں باپ
کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایہ مرے
بچوں کو ملے گا
یہ ایسا قرض ہے جو
میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ
لوٹوں میری ماں سجدے میں رہتی ہے
یاروں کو مسرت میری
دولت پہ ہے لیکن
اک ماں ہے جو بس
میری خوش دیکھ کے خوش ہے
سمجھو کہ صرف جسم ہے
اور جاں نہیں رہی
وہ شخص جو کہ زندہ
ہے اور ماں نہیں رہی
تیرے دامن میں ستارے
ہیں تو ہونگے اے فلک
مجھ کو اپنی ماں کی
میلی اوڑھنی اچھی لگی
جو بھی دولت تھی وہ
بچوں کے حوالے کر دی
جب تلک میں نہیں
بیٹھوں یہ کھڑے رہتے ہیں
جب بھی دیکھا مرے
کردار پہ دھبہ کوئی
دیر تک بیٹھ کے
تنہائی میں رویا کوئی
ابھی زندہ ہے ماں
میری مجھے کچھ بھی نہیں ہو گا
میں گھر سے جب نکلتا
ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
جب بھی کشتی مری
سیلاب میں آ جاتی ہے
ماں دعا کرتی ہوئی
خواب میں آ جاتی ہے
برباد کر دیا ہمیں
پردیس نے مگر
ماں سب سے کہہ رہی
ہے کہ بیٹا مزے میں ہے
منتظر ہونگی وہ
پاکیزہ سی آنکھیں گھر میں
گھر کی دہلیز پہ
نشّے میں کبھی مت جانا
بلندیوں کا
بڑے سے بڑا نشان چُھوا
اُٹھایا گود مِیں
ماں نے تب آسمان چُھوا
ہماری اہلیہ تو
آگئیں ماں چُھٹ گئی لیکن
کہ ہم پیتل اُٹھا
لائے ہیں سونا چھوڑ آئے ہیں
No comments:
Post a Comment
Thanks For Ur Comment