معلم / استاد پر چند اشعار

معلم / استاد پر چند اشعار

تعلیم کو لکھیں گے اگر تاج محل ہم

اس پیکر تدریس کو محراب لکھیں گے

 

ادب تعلیم کا جوہر ہے زیور ہے جوانی کا

وہی شاگرد ہیں جو خدمت استاد کرتے ہیں

 

تم نے سنوارا گل کو شگوفوں کو خار کو

تم نے حیات بخشی ہے فصلِ بہار کو

 

مدرسہ میرا میری ذات میں ہے

خود معلم ہوں خود کتاب ہوں میں

 

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

 

ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت

ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت

 

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں

 

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

 

شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ

استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا

دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر

آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر

 

استاد کے احسان کا کر شکر منیرؔ آج

کی اہل سخن نے تری تعریف بڑی بات

 

نگہ بلند، سخن دل نواز، جاں پُر سوز

یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لیے

 

وہی شاگرد پھر ہو جاتے ہیں استاد اے جوہرؔ

جو اپنے جان و دل سے خدمت استاد کرتے ہیں

 

بیدار ہوں دل جس کی فغانِ سحری سے

اس قوم میں مدت سے وہ درویش ہیں نایاب

 

کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل

کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل

 

کوئی تو ایسا ہو کہ نظر جس پہ رُک سکے

اہل نگاہ دیدہ وروں کو ترس گئے

 

گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی

صرف ادراکِ جنو ںتھا اور قبا ناچاک تھی

 

اپنے استادوں کو پایا ہم نے مشفق مہربان

حق نےنخشے ہیں انھیں اوصاف میر کارواں

 

فہم و دانائی و ہنر کا آسماں اُستاد ہے

علم و حکمت کی یقینا کہکشاں اُستاد ہے

غور کر ناداں کہ تو بھی عزتِ اُستاد پر

جہل کی تاریکیوں میں ضوفشاں اُستاد ہے

 

پھونک کر اپنے آشیانے کو

روشنی بخش دی زمانے کو

 

میں معلم ہوں کہ تدریس یے میرا شیوہ

نا مہذب کو میں تہذیب کی ضو دیتا ہوں

میری ہستی ہے ضیاء خلق و مروت کا چراغ

میں زمانے کونئے عزم کی لو دیتا یوں

 

فلک پر جب چمکتا ہے ہمارے عزم کا سورج

اندھیرے خود بہ خود تاریکیوں میں ڈوب جاتے ہیں

 

 

 

پڑھنا نا کاروبارِ زندگی لاکھوں کو آتا ہے

تڑپنا کو سکھاتے ہیں وہی اُستا د ہوتے ہے

 

سبق پڑھ کر پڑھا دینا ہنر ہے عام لوگوں کا

جو دل سے دل ملاتے ہیں وہی اُستادہوتے ہیں

 

سرمہ مفت نظر ہوں مری قسمت یہ ہے

کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا

 

علم و حکمت کا علم بردار ہے تو

قافلہء فکر کا سالار ہے تو

اس زمانے میں جہالت کے خلاف

ہر گھڑی بر سرِ پیکار ہے تو

 

وہ اپنے پیشہ تدریس کو رسوا نہیں کرتے

متاعِ علم و حکمت کا کبھی سودا نہیں کرتے

 

بدلنا ہے مجھے اپنی قوم کے بچوں کا مزاج

بین تراشے ہوئے ہیرے مجھے اچھے نہیں لگتے

 

ایّامِ شکستہ تو گزر جائیں گے لیکن

استاد کے ہونٹوں کی ہنسی یاد رہے گی

 

سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کر دیا

شمع علم و آگہی سے دل منور کر دیا

دولتِ علم و ہنر جن سے ملی ہے مجھ کو

ہر معلّم کو میرے اس کا صلہ دے مولیٰ

 

ایک نظم

معلّم

ہر سحر جگاتا ہے جو آفتاب ،وہ تم ہو

روشن شبِ تاریک کا ماہتاب، وہ تم ہو

کتنے ہی زنگ آلود ذہن تم نے نکھارے

آتی ہےآبِ زر سے جہاں تاب، وہ تم ہو

 

جس علم کی شمع سے اجالے ہیں جہاں میں

اس شمّعِ روشن کا جو محراب ،وہ تم ہو

ویران کوٸی دشت، گلستاں میں ہو تبدیل

جس علم کے چشمے سے ہوسیراب ،وہ تم ہو


ہوتے ہیں رہِ علم کے جو میل کے پتھر

منزل کی طرف کُھلتےہیں جو باب، وہ تم ہو

تم سے ہی تو تعبیر ترقی کی ہیں راہیں

زرّین ارادوں کا ہےجوخواب ،وہ تم ہو

 

قوموں کے اتّحاد سے الحاد مٹادے

اخلاصِ عمل سے بنا سیماب ،وہ تم ہو

ہو لعل و گہر کوٸی تہہِ خاک سے نکلا

جو موتی چمکتا ہو تہہِ آب، وہ تم ہو

 

یہ شان ہے دنیا کی تمہاری ہی بدولت

شہ تاج میں لگتا ہے جو سرخاب ،وہ تم ہو

بچوں سے محبت اور کتابوں سے رفاقت

رکھتے ہیں شکیل سب کو جو احباب، وہ تم ہو

 

2 comments:

Thanks For Ur Comment